Ghazals



غزل     
کھنچئے مت، کمان کو بہتر
بند رکھئے،زبان کو بہتر۔۔۔۔

ہل رہی ہون جہاں کی بنیادیں
چھوڑنا اس مکان کو بہتر۔۔۔۔۔

رکھئےمحفوظ کہ امانت ہے
اپنی اس نقد جان کو بہتر۔۔۔۔۔

بس ملمّع اترنے سے پہلے۔۔۔
چھوڑئےجھوٹی شان کوبہتر

بیشتر کہ گرفت میں آئیں۔۔۔۔۔
ہم بڑھالیں دکان کو بہتر۔۔۔۔۔۔

لائےجوزندگی میں  کڑواہٹ
تھوکنا ایسی آن کو بہتر۔۔۔۔۔۔۔۔

شعر فہمی رضیّہ عنقا ہے۔۔۔
بند کیجئے بیان کو بہتر۔۔۔۔۔۔

رضیّہ کاظمی


ظفر امر


اے ریگزارِ خواب، اکیلا نہیں ہوں میں
اے پیاس اے سراب، اکیلا نہیں ہوں میں

غم بھولنے کی کو ششِ ناکام میں یہاں
پیتے ہیں سب شراب، اکیلا نہیں ہوں میں

  غم ہی تو ٹھہرا لازمی مضمون عمر کا
سب کا یہی نصاب، اکیلا نہیں ہوں میں


اس عہدِ خوفناک  میں، اپنے ہی خوف سے
پہنے  ہوئے نقاب ،اکیلا نہیں ہوں میں


اک کھیل دھوپ  چھاؤں کا جاری ہے  روزوشب
 ہے ساتھ آفتاب، اکیلا نہیں 


کٹھ پتلیوں کا کھیل ہے ،ہم سب ہیں محوِرقص
اس کھیل میں جناب! اکیلا نہیں ہوں میں


ظفر امر، دبیٔ متحدہ عرب امارات



پیروڈی
کانٹوں پہ چل رہے ہیں آپ؛ آپ بہت عجیب ہیں ۔
بے جا اچھل رہے ہیں آپ؛ آپ بہت عجیب ہیں ۔۔

موہ لو من بھی کیا  ہوا؛ ٹھونٹھ کے ٹھونٹھ عوام ہیں ۔
پھولے نہ پھل رہے ہیں آپ؛ آپ بہت عجیب ہیں ۔۔

جو بھی سیہ سفید ہے؛ کھاتے میں آپ ہی کے ہے ۔
خود کو ہی چھل رہے ہیں آپ؛ آپ بہت عجیب ہیں ۔

بنئے نہ کچھ بنا ئیے ؛ پتلا نہ پتلی کاٹھ کی ۔
رہیئے جو کل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں ۔۔

موقع نہ دیں اڈوانی جی؛ ٹو جی کے بعد دوسرا ۔
پھر بھی مچل رہے ہیں آپ؛ آپ بہت عجیب ہیں ۔۔

ساری کی ساری سلوٹیں؛ لنگی کے گول دائرے۔
پگڑی بدل رہے ہیں آپ؛ آپ بہت عجیب ہیں  ۔

اپرہائوس کی رونقیں؛ آپ کے دم سے بڑھ گئیں ۔
کیا اب نکل رہے ہیں آپ؛ آپ بہت عجیب ہیں ۔۔

دل کا سفر طویل ہو!!!!! کتنے بھی بائی پاس ہوں ۔
کب سےٹہل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں  ۔۔  

کرسی بچی ہے دام سے، سام نہ دنڈ، بھید سے۔
نوٹوں پہ پل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں  ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔فضل عبّاس۔
 غزل
ہجرمیں ان کے کٹی رات بڑی مشکل سے
کچھ تھمی اشکوں کی برسات بڑ ی مشکل سے

دیکھنا پھرسے کہیں وہ نہ خفا ہو جائیں
بنتی ہے بگڑی ہوئی بات بڑی مشکل سے

خود کشی کے لئے انسان نے ایجاد کئے
جنگ اور حرب کے آلات بڑی مشکل سے

تیز رفتار ہوئی زندگی اس دور میں یوں
ملتےہیں پیار کےلمحات بڑی مشکل سے

عہدہ داروں کی ادائیں بھی ہیں معشوقوں سی
ہوتی ہے ان سے ملا قات بڑی مشکل سے

عشق سے آپ کے ہم کیسے بھلا باز آئیں
چھوٹتی ہیں بری عادات بڑی مشکل سے۔

درد الفت ہےہمیںجان سےبھی بڑھ کےعزیز
کیونکہ پائی ہے یہ سوغات بڑی مشکل سے

زند گی عا لیہ بس جد و جہد میں گزری۔۔۔۔
قابو میں آئے ہیں حا لات بڑی مشکل سے
از
عالیہ تقوی
الہ آبادی

پیشکش
رضیّہ کاظمی


                  غزل
                 
                    محمد نجیب احمد نجیب     
اپنی اپنی زندگی میں عشق ایک آزار تھا
ایک دُوجے کو سمجھ لینا جہاں دشوار تھا
عشق کی پگڈنڈیوں پر ہم سنبھل کر ہی چلے
منزلیں ملتی  گیٔں،  پر  راستہ  پُر خار  تھا
غم، خوشی کی ہر گھڑی میں آنکھ نم ہوتی رہی
ہم سمجھنے سے رہے خُوشیوں کا کیا معیار تھا
داستانِ  عشق  کو رنگیں  بنانے  کے  لیٔے
قطرہ قطرہ دو دلوں کے خُون کا درکار تھا
اس نے میری راہ میں کانٹے بِچھاۓ  رات دن
میں  ترقی  کر رہا  تھا  وہ  ذلیل  و  خوار  تھا
۔غم سے بہل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
درد میں ڈھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

سایہء وصل کب سے ہے آپ کا منتظر مگر
ہجر میں جل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

اپنے خلاف فیصلہ خود ہی لکھا ہے آپ نے
ہاتھ بھی مَل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

وقت نے آرزو کی لَو دیر ہوئی بجھا بھی دی
اب بھی پگھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

زحمتِ ضربتِ دگر دوست کو دیجئے نہیں
گر کے سنبھل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

دائرہ دار ہی تو ہیں عشق کے راستے تمام
راہ بدل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

دشت کی ساری رونقیں خیر سے گھر میں ہیں تو کیوں
گھر سے نکل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

اپنی تلاش کا سفر ختم بھی کیجیے کبھی
خواب میں چل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں

پیرزادہ قاسم



 Dil kee kathin dagar pay chala to pata chala
khud ko supurd unkay kiya to pata chala

ulfat ka to pal-pal bhi hai sakraat say badhkar
furqat ka hamnay zahr piya to pata chala

iss dowr kee ulfat to zamanay may hai ruswa
apna koi apna na raha to pata chala

jazbaat ka qatl bhi to insaa.n ka qatl hai
alfaaz ka khanjar jo laga to pata chala


Majbooriyoun ko meri wo kahta raha hai zid
meri zid pay jo majboor hua to pata chala

jismo say rahaten to mainay paayi zamee parr
jab jism yeh zameen bana to pata chala

Gowhar ka dil to dil nahee pa sheesha-e naazuk
jab dil mera pathar say laga to pata chala

Gowhar Deccani


غــــــــزل
 
نہ تو موسم ِ فصل ِ بھار مين!
نہ شبِ وصل کي خُمار مين!
 
کيون سُکون مِلے ہے مُجھے فقط،
تيرے دِيـد کے اِنتظار مين؟
 
پھر لے تُو چاہے ميرا اِمتحان؟
مين رَھونگا تيرا ہي جان فِدان،
 
کيا گُلاب ہے، کہ تيرا حُسن پھر،
يون کِھلا کِھلا رہے خار مين؟
 
يہ تيري تِشنگي کا اَثر ہي ہے،
کہ ميرے رَنگ و بُو مين تُو بَس گئي
 
گر عِشـق تيـرا ہے جو اِنتھــاء!
ہے جُنون ميرے بھي پيار مين
 
مجھے نِيند مين بھي تصوّّر تيرا،
جب مين جاگتا ہون تو تُو ہي تُو!
 
کُچھہ عجب نشہ ہے تيرے قُرب کا،
ہے غزب تيرے حُسن و نِکھار مين
 
تيرا ذِکر ہر اِک لب و زُبان پر،
ہين چرچے ہر گلي و دُکان پر،
 
تيرے دَم سے ہين سبھي محفلين،
ہے قھـر تيرے چشم ِ نِگار مين!
 
اَب کليم آور کيا کرے بيان؟
وہ  کمال ِ حُسن ِ دِل ِ جاودان
 
اُنہين ديکھنے اَج  بے نَقاب،
کھڈے ہم بھي ہين اَب قطار مين؟


کليم حيدرآبادي

غزل
راہ وفا میں اب ہم نے بھی اپنا کام تمام کیا
اے میرے منظور نظر جا دل بھی تیرے نام کیا

عشق ہماری فطرت میں تھا نہ ہم اس سے واقف تھے
اس نے آغاز کیا تھا اس نے ہی انجام کیا

کچھ لوگوں کا حق باقی تھا نیند کہاں آ سکتی تھی
سر سے اتری ذمہ داری تب جاکر آرام کیا

راہ وفا میں چلتے چلتے ہم نے صدیاں کاٹی ہیں
پیروں کے چھالوں سے ہوچھو کب ہم نے آرام کیا

دہشت گردی قتل و غارت میرا کام نہیں لیکن
میری جانب انگلی رکھٌی میرے سر الزام کیا

برپا کی ہیں دیش کی خاطر ہم نے کتنی تحریکیں
اپنے لہو کا قطرہ قطرہ ہم نے اس کے نام کیا

ہم سے مت پوچھو کہ کیا ہیں اور کہاں سے آئے ہیں
تاج محل میں جاکر دیکھو ہم نے کیا کیا کام کیا

بارودوں سے خون کا رشتہ کس کا ہے تحقیق کرو
کس نے کھیلی خون کی ہولی کس نے قتل عام کیا

احمد رئیس نظامی



      غزل     
مالا والا، بِندی وِندی، جُھومر وُومر کیا
زیور تیرا چہرہ تجھ کو زیور ویور کیا
کام زُباں سے ہی لیتے ہیں سارے مہذب لوگ
طَنز کا  اک  نشتر کافی   ہے  پتھر وتھر کیا
اول تو ہم  پیتے نیٔں  ہیں گر پینا  ٹھہرے
تیری آنکھوں سے پی لینگے ساغر واغر کیا
 جیون اک چڑھتا دریا ہے ڈوب کے کر لے پار
اس  دریا میں  کشتی و شتی  لنگر وَنگر  کیا
مال وال کس شمار میں ہے جان وان کیا شۓ
سر میں سودا سچ کا سما جاۓ تو سَر وَر کیا
تُجھ کو دیکھا جی بھر کے اور آنکھیں ٹھنڈی کر لیں 
گُل وُل کیا،  گُلشن کیا،  اور مَنظر وَ نظر کیا
زیب کہو اللہ کرے  فِردوسِ  بریں  میں  مکاں
شعر ویر یہ غزل وزل کیا مُضطر وَضطر کیا
--

مضطر مجاز

ایک مزاحیہ قطعہ
        بیچارہ
اک بھوت سے ہوئی جو ملاقات کل مری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوچھا یہ میں نےاس سےابھی تک ہوکیوں یہاں

جب کٹ چکا ٹکٹ تونہیں جاتے کیوں عدم۔۔۔۔۔
یہ کیا ہے ساری رات بھٹکنا یہاں وہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بولا یہ بھوت میں بھی پریشاں ہوں کیا کروں
گھسنےنہیں وہ دیتےسواٹکا ہوں میں یہاں

کہتےہیں ویزا دینگےنہیں کی جوخود کشی
پوری کہاں قیام کی مدّت ہوئی وہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب آپ ہی بتا ئیے آخر کروں میں کیا۔۔۔۔۔۔۔۔؟
رہنا یوں ہی ہے دونوں جہانوں کے درمیاں
از
عالیہ تقوی
الہ آبادی
پیشکش
رضیہ کاظمی


 

    طفل معصوم کی التجا
التجا ہے مری بھگوان نہ اس گھر میں بھیج
تیرا ہوگا بڑا احسان نہ اس گھر میں بھیج۔۔۔

گھر میں کھانےکو نہ کچھ ہےنہ پہننےکوکچھ
پھربھی بیٹےکاہےارمان نہ اس گھر میں بھیج

چوری ہے پیشہ نکمّےہیں سب اک نمبر کے
وہ جو بیچا کریں ایمان  نہ اس گھر میں بھیج

ایسےکنگلوں کی مرےواسطےعرضی بھیجی
پیرصاحب بھی ہیں نادان نہ اس گھر میں بھیج

بھیجنا ہی ہےاگر بھیج دے بل گیٹس کے گھر
عرض میری بھی ہےکردھیان نہ اس گھرمیں بھیج

کلام تیغ الہ آبادی
[مندرجۂ ذیل قطعہ جنوری ۱۹۵۳ ء میں رسالہ آجکل کے صفحہ ۴۵ پر شائع ہوا تھا]

کتنےجانسوز مراحل سے گزرکر دل نے
کس قدر سلسلۂ سود وزیاں دیکھے ہیں

ڈوبتی رات کےسہمےہوئے کتنےتارے
جھومتی صبح کےآنچل میں یہاں دیکھےہیں

ٹوٹتےسازبکھرتےہوئےنغموں کے قریب
چوٹ کھائی ہوئی قسمت کےنشاں دیکھےہیں

جس سیاست کو تھا بیمارتفکّر سے عناد
اس کی قدروں میں تضادوںکےبیاں دیکھےہیں

موت کو جس کےتصوّر سے پسینہ آجائے
زیست کےدوش پہ وہ بار گراں دیکھے ہیں

وقت کے تند سمندرمیں ہر اک دھارے نے
کتنے خنجر مری گردن پہ رواں دیکھےہیں

پھر بھی اےحسن جنوں،کیف جنوں،جوش جنوں
کب مہ وسال نے یہ عزم جواں دیکھے ہیں

سابقہ کس سے پڑا ہے ابھی طوفانوں کو
ہاں ابھی موت نےانسان کہاں دیکھےہیں
پیشکش
از رضیّہ کاظمی

 


ایک تازہ غزل
[فلم ۲۰۱۲ دیکھ کر]

آگہی کے کھیل میں ہی یہ زیاں ہونےکو ہے
برق رفتاری میں سب کچھ لامکاں ہونےکو ہے

 اک تزلزل سا زمیں تا آسماں ہونے کو ہے
اور پھرچشم زدن میںسب دھواں ہونےکوہے

ہر کسی کو اک قیامت کا گماں ہونےکوہے
عالم ہستی فقط ہوکا مکاں ہونے کو ہے۔۔۔۔۔

خار ہر دامن سے یوں بےوجہ جو الجھاکئے
باغباں! بد نام نظم گلستاں ہونے کو ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

صاف کرتے جائیے آئینۂ امروز کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود بخود پھر چہرۂ فردا عیاں ہونے کو ہے

آپ قلب مطمئن لےکر کہیں بھی جائیے۔۔۔۔۔۔۔
 بس گئےجس جا وہی اپنا مکاں ہونےکوہے

سر جھکادے روبروخالق کےگرہوکرخفیف
رحمتوں کا اسکےپھرپلّہ گراں ہونےکوہے

کرکےعرض مدّعا سب سےرضیّہ تھک چکے
  وہ ہوا جب مہرباں تو سب جہاں ہونےکوہے۔۔
  از 
رضیّہ کاظمی
پرنسٹن،نیو جرسی
امریکہ



غزل
 
سب آسرے،سہارے پتھر کے ہو گۓ ہیں
غمخوار میرے سارے پتھر کے ہو  گۓ ہیں
بے نور آسماں ہے،بے رنگ کہکشاں ہے
مہتاب اور ستارے  پتھر کے ہو گۓ ہیں
نکہت نہیں  چمن میں،حدت نہیں شرر میں
کیا پھول،کیا شرارے، پتھر کے ہو گۓ ہیں
کب سے پڑی ہیں بنجر اشعار کی زمینیں
تشبیہ و استعارے پتھر کے ہو گۓ ہیں
کیا ذکر آنسؤوں کا،آہیں بھی منجمد ہیں
آنکھوں کے اب کنارے پتھر کے ہو گۓ ہیں
پگھلے  ہیں موم بن کر،بکھرے ہیں گرد ہو کر
پھر تھک کے ہم بچارے  پتھر کے ہو گۓ ہیں
کس سے کہوں میں دل کی،اس سنگدل جہاں میں
دیکھوں کدھر، نظارے،پتھر کے ہو گۓ ہیں
یہ انقلاب  گویا، ہے حشر کی نشانی
دیکھو تو ماہ پارے پتھر کے ہو گۓ ہیں
سنگلاخ وادیوں میں بے چارہ کر کے ہم کو
یہ چارہ گر ہمارے پتھر کے ہو گۓ ہیں
فایٔزہ  فضا
الع

 

غزل

رؤف خیر
مضائقہ نہیں کوئی جو پھل ہی کاٹ دیا
شجر تمام مگر بے محل ہی کاٹ دیا
ملا تھا وقت ہمیں ’ وقفۂ صفر‘ کی طرح *
جھجک جھجک کے یہ انمول پل ہی کاٹ دیا
اڑ ان بھر نے کا موقع نہیں دیا اس نے
جوازِ شہپری پہلے پہل ہی کاٹ دیا
معلقات کو دیمک تمام چاٹ گئی
سخن کا دعویِ ضرب المثل ہی کاٹ دیا
چلو سنبھال لیا خاکسار کو اس نے
انا پرست سے روزِ ازل ہی کاٹ دیا
ہم اپنی شرط پہ رد و قبول کرتے ہیں
جو کاٹنا تھا ببا نگِ دہل ہی کاٹ دیا
غزل تو خیرؔ جنابِ مدیر نے چھاپی
ملال یہ ہے کہ بیت الغزل ہی کاٹ دیا
غزل
کیوں تجھے اپنے ستم یاد آئے
کس نے دل توڑا جو ہم یاد آئے

جھک گئی کیوں یہ نظر ملتے ہی
کیا کوئی قول و قسم یاد آئے

کچھ نہ کچھ ہے تو، اُداسی کا سبب
مان بھی جاؤ کہ ہم یاد آئے

بت کدہ چھوڑ کے جانے والو
کیا کرو گے جو صنم یاد آئے

جب بھی پامالئی اقدار ہوئی
وقت کو اہلِ قلم یاد آئے

کیا ہوا راہِ جنوں کو ضامن
کیوں مرے نقشِ قدم یاد آئے

(
ضامن جعفری)
غزل
راشد آزر

سایہ تھا مرا، اور مرے شیدائیوں میں تھا
اک انجمن سا وہ مری تنہائیوں میں تھا

چھنتی تھی شب کو چاندنی بادل کی اوٹ سے
پیکر کا اُس کے عکس سا پرچھائیوں میں تھا

کوئل کی کُوک بھی نہ جواب اُس کا ہوسکی
لہرا ترے گلے کا جو شہنائیوں میں تھا

جس دم مری عمارتِ دل شعلہ پوش تھی
میں نے سنا کہ وہ بھی تماشائیوں میں تھا

اُٹھا اُسی سے زیست کے احساس کا خمیر
جو درد دل کے زخم کی پہنائیوں میں تھا

جب شہر میں فساد ہوا تو امیرِ شہر
دیکھا گیا کہ آپ ہی بلوائیوں میں تھا

بے حد حسین تھا، مگر آزر، مجھے تو بس
یاد اِس قدر رہا کہ وہ ہرجائیوں میں تھا

Syed  Aijaz Shaheen
 

Woh subah hamee.n say aayegi
Allah ki rehmat chhahegi

In kaali saddiyon kay sar say jab raat ka aanchal dhalkay ga
jab dukh kay badal pighleingay jab sukh ka saagar jhalkay ga
jab ambar jhoom kay naachay ga jab dharti naghmay gaaye gi

Woh subah hamee.n say aayegi
Allah ki rehmat chha-egi

jis subah ki Khaatir jug jug say hum sab mar mar ke jeetay hein
jis subah kay amrit ki dhun mein hum zahar kay piyaalay peetay hein
in bhooki piyaasi roohon par ik din toh karam faramaaye gi

Woh subah hamee.n say aayegi
Allah ki rehmat chha-egi

maanaa kay abhi teray meray armaanon ki qeemat kuch bhi nahee'n
miTTi ka bhi hai kuch mol magar insaano'n ki qeemat kuch bhi nahee'n
insaano'n ki izzat jab jhuThay sikko'n mein na toli jaaye gi

Woh subah hamee.n say aayegi
Allah ki rehmat chha-egi

daulat kay liye jab aurat ki ismat ko na baichaa jaaye ga
chaahat ko naa kuchlaa jaaye ga, izzat ko naa baichaa jaaye ga
apni kaali kartuuto'n par jab yeh duniya sharmaaye gi

Woh subah hamee.n say aayegi
Allah ki rehmat chha-egi

beeteingay kabhi to din aaKhir yeh bhook kay aur baykaari kay
TuuTeinge kabhi toh bu'T aaKhir daulat ki ijaaradaari kay
jab ek anokhi duniyaa ki buniyaad uThaai jaaye gi

Woh subah hamee.n say aayegi
Allah ki rehmat chha-egi

majboor burHaapa jab sooni raahon ki dhool na pha'nkay ga
masoom larakpan jab ga'ndi galiyon mein bheek na maangay ga
haq maangnay waalon ko jis din suli na dikhaai jaaye gi

Woh subah hamee.n say aayegi
Allah ki rehmat chha-egi

faaqon ki chitaaon par jis din insaa'n na jalaaye jaayein gaye
seene ki dahaktee dozakh mein aramaan na jalaaye jaayein gaye
yeh narg say bhi ga'ndi duniya, jab swarg banaai jaaye gi

Woh subah hamee.n say aayegi
Allah ki rehmat chha-egi

jis subah ki Khaatir jug jug se hum sab mar mar ke jeetay hein
jis subah kay amrit ki dhun mein hum zahar kay piyaalay peetay hein
woh subah na aayi aaj magar, woh subah kabhi toh aaye gi

Woh subah hamee.n say aayegi
Allah ki rehmat chha-egi

غزل

رؤف خیر
مضائقہ نہیں کوئی جو پھل ہی کاٹ دیا
شجر تمام مگر بے محل ہی کاٹ دیا
ملا تھا وقت ہمیں ’ وقفۂ صفر‘ کی طرح *
جھجک جھجک کے یہ انمول پل ہی کاٹ دیا
اڑ ان بھر نے کا موقع نہیں دیا اس نے
جوازِ شہپری پہلے پہل ہی کاٹ دیا
معلقات کو دیمک تمام چاٹ گئی
سخن کا دعویِ ضرب المثل ہی کاٹ دیا
چلو سنبھال لیا خاکسار کو اس نے
انا پرست سے روزِ ازل ہی کاٹ دیا
ہم اپنی شرط پہ رد و قبول کرتے ہیں
جو کاٹنا تھا ببا نگِ دہل ہی کاٹ دیا
غزل تو خیرؔ جنابِ مدیر نے چھاپی
ملال یہ ہے کہ بیت الغزل ہی کاٹ دیا
غزل
ہاۓ کیا کیاتھے خواب آنکھوں میں
خواب تھے یا  عذاب آنکھوں میں
دید کی پیاس تھی کہ بجھتی نہ تھی
اتر آۓ  سراب  آنکھوں میں
مضطرب دل نہیں تو پھر کیوں ہے
اس قدر اضطراب آنکھوں میں
کیا عجب ہے کہ لڑکھڑاۓ جہاں
ہے لبالب شراب آنکھوں میں
کاسۂ چشم ہے  مری  مسجد
ہے نمازو ثواب آنکھوں میں
میں نے کیا دیکھا ،کیا نہیں دیکھا
کیاکہوں،تھا حجاب آنکھوں میں
کس کے رخ پر ٹھہر گیٔ ہے نگاہ
بس گۓ ہیں گلاب آنکھوں میں
دیکھ، جاۓ نہ آبرو  غم کی
دیکھ ،آۓ نہ آب آنکھوں میں
جوشِ گریہ سےحال ہے یہ فضا
اٹھ رہے ہیں حباب آنکھوں میں

فایٔزہ فضا
العین۔متحدہ عرب امارات

Have some mercy on your slaves! 

(Allies urge US to go slow on Egypt, see below)
**************************************
Have some mercy on your slaves,!
Oh our Saviour : Oh our Lord; !
We shudder to think of this change,
With Mubarak, you are cutting your cord.
We always tied our fortunes to your will,
We sacrificed our honour for your sake;
We never imagined, you will be swayed,
By the popular voice, which is false and fake.
If your Egyptian stooge is left in lurch,
The emerging tremors  will shake us all;
None will be left to echo your praise,
One after the other, each of us will fall.
Rule by people is against our faith,
This  democracy is an  un-Islamic creed;
Our boundless luxuries will see their doom,
If this uprising sows its fatal seed.
*****************************
Dr. Mustafa Kamal Sherwani,LL.D.
Lucknow , U.P. India

غزل
ہاۓ کیا کیاتھے خواب آنکھوں میں
خواب تھے یا  عذاب آنکھوں میں
دید کی پیاس تھی کہ بجھتی نہ تھی
اتر آۓ  سراب  آنکھوں میں
مضطرب دل نہیں تو پھر کیوں ہے
اس قدر اضطراب آنکھوں میں
کیا عجب ہے کہ لڑکھڑاۓ جہاں
ہے لبالب شراب آنکھوں میں
کاسۂ چشم ہے  مری  مسجد
ہے نمازو ثواب آنکھوں میں
میں نے کیا دیکھا ،کیا نہیں دیکھا
کیاکہوں،تھا حجاب آنکھوں میں
کس کے رخ پر ٹھہر گیٔ ہے نگاہ
بس گۓ ہیں گلاب آنکھوں میں
دیکھ، جاۓ نہ آبرو  غم کی
دیکھ ،آۓ نہ آب آنکھوں میں
جوشِ گریہ سےحال ہے یہ فضا
اٹھ رہے ہیں حباب آنکھوں میں

فایٔزہ فضا
العین۔متحدہ عرب امارات

غزل
(داغ دہلوی )

یہ کیا کہا کہ داغ کو پہچانتے نہیں
وہ ایک ہی تو شخص ہے ، تم جانتے نہیں

بد عہدیوں کو آپ کی کیا جانتے نہیں
کل مان جائیں گے اسے ہم جانتے نہیں

وعدہ ابھی کیا تھا، ابھی کھائی تھی قسم
کہتے ہو پھر کہ ہم تجھے پہچانتے نہیں

چھوٹے گی حشر تک نہ یہ مہندی لگی ہوئی
تم ہاتھ میرے خوں میں کیوں سانتے نہیں

مہرو وفا کا کب اُنہیں آتا ہے اعتبار
جب تک اسے وہ خوب طرح چھانتے نہیں

سربازو جاں نثار محبت وہ ہیں دلیر
رستم بھی ہو تو کچھ اُسے گردانتے نہیں

اُنکا بھی مدعا تھا مرا مدعا نہ تھا
پر کیا کروں کہ وہ تو مری مانتے نہیں

تن جائیں گے جو سامنے آئے گا آئینہ
دیکھیں تو کس طرح وہ بھنویں تانتے نہیں

نکلا ہے جو زباں سے اُس کو نباہئے
ایسی وہ اپنے دل میں کبھی ٹھانتے نہیں

جب دیکھتے ہو مجھ کو چڑھاتے ہو آستیں
دامن عدو کی قتل پہ گردانتے نہیں

کیا داغ نے کہا تھا جو ایسے بگڑ گئے
عاشق کی بات کا تو بُرا مانتے نہیں
 
کلیم عاجز


مجھے اس کا کوئی گلہ نہیں بہار نے مجھے کیادیا؂؂
تری آرزو تونکال دی تراحوصلہ توبڑھادیا

گوستم نے تیرے ہرایک طرح مجھے ناامید بنادیا
یہ میری وفا کا کمال ہے کہ نباہ کرکے دکھادیا

کوئی بزم ہو کوئی انجمن یہ شعاراپناقدیم ہے
جہاں روشنی کی کمی ملی وہیں ایک چراغ جلادیا

تجھے اب بھی میرے خلوص کا نہ یقین آئے توکیاکروں
تیرے گیسوئوں کو سنوار کر تجھے آئینہ بھی دکھادیا

میری شاعری میں تیرے سواکوئی ماجراہے نہ مدعا
جوتیری نظرکا فسانہ تھا وہ میری غزل نے سنادیا

یہ غریب عاجز بے وطن یہ غبارخاطرانجمن 
یہ خراب جس کیلئے ہوا اسی بے وفانے بھلادیا

Syed  Aijaz Shaheen
Dubai-UAE
 
   غزل     
 
مالا والا، بِندی وِندی، جُھومر وُومر کیا
زیور تیرا چہرہ تجھ کو زیور ویور کیا
کام زُباں سے ہی لیتے ہیں سارے مہذب لوگ
طَنز کا  اک  نشتر کافی   ہے  پتھر وتھر کیا

اول تو ہم  پیتے نیٔں  ہیں گر پینا  ٹھہرے
تیری آنکھوں سے پی لینگے ساغر واغر کیا

 جیون اک چڑھتا دریا ہے ڈوب کے کر لے پار
اس  دریا میں  کشتی و شتی  لنگر وَنگر  کیا

مال وال کس شمار میں ہے جان وان کیا شۓ
سر میں سودا سچ کا سما جاۓ تو سَر وَر کیا

تُجھ کو دیکھا جی بھر کے اور آنکھیں ٹھنڈی کر لیں 
گُل وُل کیا،  گُلشن کیا،  اور مَنظر وَ نظر کیا

زیب کہو اللہ کرے  فِردوسِ  بریں  میں  مکاں
شعر ویر یہ غزل وزل کیا مُضطر وَضطر کی


GHAZAL
 
 
Na to mausam-e-fasl-e-bahar main!
Na shab-e-wasl ki khumaar main!
 
Kyun sukoon miley hai mujhey faqat,
Tere deedh ke intezaar main?
 
Ab ley too chahey phir imtihaan?
Main rahoonga tera hi jaan fidaan,
 
Kiya gulaab hai, ke tera husn phir!
Yun khila khila rahey khaar main?
 
Ye teri tishnagi ka asar hi hai,
Ke merey rang-o-boo mey too buss gayee,
 
Gar ishq tera hai jo intehaa!
Hai junoon merey bhi pyaar main.
 
Mujhey neend main bhi tasawwar tera,
Jab main jaagta hoon to, too hi too!
 
Kuch ajab nashaa hai terey qhurb ka,
Hai gazab terey husn-o-nikhaar main
 
Tera zikr her ek lab-o-zubaan per!
Hain charchey her gali-o-dukaan per!
 
Terey dum sey hain sabhi mehfilen,
Hai qaher terey chasm-e-nigaar main!
 
Ab KALEEM aur kya karey bayaan?
Wo kamaal-e-husn-e-dil-e-jawedaan,
 
Unhey dekney ko aaj be-naqaab,
Khadey hum bhi hain yun qataar main?
 
 
KALEEM HYDERABADI

غزل
چھٹا جو تیرنہ واپس پھرا کماں کے لئے
لگام یوں ہی ضروری ہوئی زباں کےئے

تمیزکرنہ سکےنیک وبد میں جب ،مجھکو
چلےوہ چھوڑکےمرقد میں امتحاں کےلئے

سکون پھر نہ ملاجائے استقامت کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یوں ہی بھٹکتےپھرتےرہےہرکہیںاماں کےلئے

ستون گرتے رہےپھربھی یھ فلک نہ گرا
کسے ہےرنج مری عمررائگاں کےلئے

ہر ایک شخص ہوا ہے بذات خود رہبر
 تلاش اب ہےعبث میرکارواں کے لئے

ملی نہ شاخ چمن کوئی بس  بھٹکتے رہے
چنےتھےہم نےبھی کچھ تنکےآشیاںکےلئے

رضیّہ چل نہ سکا پیش بندیوں سے کام۔
ہوئی ادائگی دشواریوں زباں کے لئے۔۔۔
رضیّہ کاظمی
 

--
     I am Revolution
                       *************
I am born in the blood of the oppressed,
In the veins of the poor, I start to flow;
The hearts of the depressed have my throbs,
The wounded egos give me a beaming glow.
The  injustice  always  thinks , I have died,
The repression  considers , I have no choice;
The savagery never  fathoms  my  depth,
The brutal regimes  try to silence  my voice.
I wait for my foes to mend  their ways,
I exhort them to behave with a  human grace;
But their arrogance stands as a stumbling- block,
Then with  every silent  sigh, I increase my pace.
Slowly, I leave my abode in hearts and minds,
And come on the streets to show my  might;
Like the seething sea under the scorching Sun,
My simmering discontent gains its height.
Fuming with rage, I become a tempest,
My  frenzy  makes me totally blind ,
What I will do, I am unable to foresee;
None can anticipate my colour and kind.
Wait for the time when my fury ends,
Horrific trails of ravages, you will find;
Luxurious palaces will be lying in debris,
‘I am revolution’, I have lost my mind .
*********************************
Dr. Mustafa Kamal Sherwani, LL.D.
All India Muslim Forum
Lucknow, U.P. India

فریاد آزرؔ کی تخلیقی آزریڈاکٹر کوثرؔ مظہری
شعبہء اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ
اردو غزل میں جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں اس کے واضح نقوش بہت کم شاعروں کے یہاں نظر آتے ہیں۔اپنے عہد کی ستم ظریفیوں ور عیاریوں کو آئینہ دکھانے کی ہمت ہر شاعر میں نہیں ہوتی ۔اس کام کے لئے صفائے باطن اور شعورِ فن کے ساتھ ساتھ تخلیقی قوت چاہئے۔ فریاد آزر ایک ایسے شاعر ہیں جو ۱۹۸۰ کے بعد کی ادبی نسل میں ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔ان کی غزلوں میں فرد کی بے ضمیری اور معاشرے کی بے مروتی دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ اشعار دیکھئے:
پھر میں سچ بولنے والا ہوں یزیدوں کے خلاف
پھر مرے سر   پہ وہ شمشیر  نظر آنے لگی
۔۔۔۔۔۔
اب تو ہر شہر ہے اک شہرِطلسمی کہ جہاں
جو بھی جاتا ہے وہ پتھر میں  بدل جاتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اپنی لاش کو تنہا ہی د فن کر لوں گا
کہ تم بھی جاؤ ،سبھی لوگ گھر گئے اپنے
فریاد آزرؔ نے ر شتوں کے ٹوٹنے اور آدمی کے بکھر جانے کو بھی اپنے شعروں میں پیش کیا شعر ملاحظہ کیجئے:
نہ کوئی دوست نہ ساتھی نہ کوئی رشتہ دار
غریب کیا ہوئے سب لوگ مر گئے اپنے
۔۔۔۔
بسا رہا ہے ہر اک فرد اک الگ ہی جہاں
بکھر رہا ہے ہر اک خاندان قسطوں میں
۔۔۔۔۔۔
فریاد آزر نے غزل کے چہرے سے پردۂ الہام کو چاک کیا ہے۔وہ صاف گوئی سے کام لیتے ہیں اورمعاشرے میں جو تبدیلی رونما ہو رہی ہے یا ہو چکی ہے اسکی نشاندہی کرتے ہیں وہ جدید ذہنوں اور جدید تہذیبی بساط پر کھڑی نئی نسل کو طنز کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔آزر کے فکری ابعاد کی زد میں عہدِجدید اور عہدِقدیم دونوں ہیں۔ یہاں ایک ہی غزل کے دو شعردیکھئے:
دفن کر دیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِقدیم
رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِجدید
۔۔۔۔۔
سب سنائی دیتا ہے آزرؔ اذانوں کے سوا
محوِِ حیرت ہیں کہ ہم بھی ہو گئے کتنے جدید

تہذیبی سفاکیت کو آئینہ دکھانے کا کام نئی غزل میں خوب کیا گیا ہے لیکن فریاد آزر کے یہاں یہ رنگ قدرے تیز ہے۔ موضو ع اور موتف پر غور کیجئے اور اوپر ذکر کئے گئے انسانی بے بسی کے حوالے سے چند شعر دیکھئے:
عجیب طور کی مجھ کوسزا سنائی  گئی
بدن کے نیزے پہ سر رکھ دیا گیا میرا
۔۔۔۔
پاوں کے نیچے سلگتی ریت، صدیوں کا سفر
اور  سر  پر بارِ  سقفِ  آسماں جلتا ہوا
۔۔۔۔۔۔۔
آتا تھا دیر رات کو جاتا علی الصباح
بچے اسے سمجھتے  تھے دفتر کا آدمی
انسان کبھی کبھی غفلت شعاری میں اپنی عمر کے قیمتی لمحات گنوا دیتا ہے۔ اسے پتہ نہیں ہوتا کہ مستقبل کی کامیابی کا راز حال کی محنت اور مشقت میں ہے۔ فریاد آزر ؔ نے بڑی خوبصورتی سے اس مضمون کو پیش کیا ہے۔
ہم نے گزار دی جسے چھاؤں میں بیٹھ کر
وہ زندگی تھی دھوپ سے لڑنے کی زندگی
اسی طرح کبھی انسانی پس و پیش اور کشمکش کے موضوع کو آزرؔ پیش کرتے ہیں، کبھی کبھی انسان کے لئے ایک لمحہ بھی بھاری پڑتا ہے اور کبھی ذرا سی غفلت سے انسان بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔شعورِ ذات کی کلید احساسِ لطیف ہے۔دونوں کی ہم آہنگی سے ہی فکری بالیدگی پیدا ہوتی ہے۔آزرؔ اس راز سے واقف ہیں۔ زمانے کی ستم ظریفی اور گردشِ ایام پر ان کی گہری نظر ہے۔جس کے اندر ذرا بھی جھجھک ہے( بلکہ میں اس جھجھک کو میں تہذیبی رکھ رکھاؤ کہوں گا) وہ زمانے کی تیز رفتاری کا ساتھ نہیں دے سکتا ۔ فریاد آزر نے اسی بات کو تخلیقیت کے عناصر میں گھلا ملا کر یوں پیش کیا ہے:
چلے تو فاصلہ طے  ہو  نہ  پایا   لمحوں کا
رکے تو پاؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں
۔۔۔۔۔۔۔
وہ بے دریغ کئے  جا رہا  تھا  قتل مرا
میں منتظر تھا کہ اس  پر عذاب اترے گا
فساد بہت ہی سامنے کا موضوع ہے۔اس عہد کا شاید ہی کوئی شاعر ہوگا جس نے فساد کے حوالے سے ایک آدھ شعر نہ کہے ہوں۔ اس کو آزرؔ یوں پیش کرتے ہیں۔
جہاں فساد میں اعضائے جسم کٹ کے گرے
اسی زمین سے  ہم   لخت  لخت  اگنے لگے

فریاد آزرؔ اس دور کے شاعر ہیں لہٰذا س عہد کے کرب کو انھوں نے سمجھا ہے، محسوس کیا ہے معاملہ چاہے ذاتی ہو، سماجی ہو یا بین اقوامی، انکی نگاہ ہر اہم موضوع پر ضرور پڑتی ہے۔ چاہے معاملہ سائنسی ترقیات اور خلائی سیارچوں کا ہو جس کے زریعہ آج نہیں تو کل اسٹار وار ہونا ہی ہونا ہے،یا پھر زمینی، فضائی یا خلائی آلودگی کا ہو یا بین اقوامی دہشت گردی اور اس کو بہانہ بنا کر پوری دنیا میں ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کی جگہ جگہ نسل کشی ہو ،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر اس کو بغور دیکھ رہا ہے اور اس پر آنسوبہا رہا ہے۔ ایسے اشعار کی تعداد بہت ہے بخوفِ طوالت محض چند اشعار پیش ہیں۔
خلاؤں میں بھی شر پھیلا رہا ہے
پرندہ  کتنا   پر پھیلا رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
فضائے شہر  آلودہ  بنا کر
وہ گاؤں پر نظر پھیلا رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کون جائے ذوقؔ اب دلّی کی گلیاں چھوڑ کر
صبح کی تازہ ہوا  لے آئیں گے دوکان سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں
خوب صورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔
فضا کتنی بھی  آلودہ    ہو   آزرؔ
ہمارے ذہنوں سے بہتر ہے اب بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس قبیلے کے لہومیں   ذائقہ  اتنا  لگا
جس کو بھی دیکھا ،اسی کے خون کا پیاسا لگا
اس قدر آنکھیں کھلی رکھنے والا انسان ہی صحیح معنوں میں شاعر ی کا حق ادا کر سکتا ہے ورنہ ذاتی مشغلہ کی بنیاد پر اشعار کہنے والوں کی ایک کثیر تعداد ہر دور میں موجود رہتی مگر وقت انھیں بھلا دیتا ہے۔ فریاد آزرؔ ایسے شاعر ہیں جنھیں نہ تو غزل کی تاریخ فراموش کر سکتی نہ ہی وقت کاغباران کے افکار کو دھندلا کر سکتا ہے۔ بہر حال غزل گوئی میں فریاد آزرؔ کی ریاضت جاری ہے۔ مجھے امید ہے کہ نئی غزلیہ شاعری کے متون میں ان کی زبر دست حصہ د اری رہے گی۔
******
--
               

     عالیہ تقوی،الہ آباد                     
                     غزل                   
ہے وہم میں کہیں نہ کہیں ہے گمان میں
تجھ سا کوئی حسین نہیں اس جہان میں

بس لڑکھڑا نہ جا ؤں نبی و ولی نہیں۔۔۔
ما لک! نہ ڈال اور مجھے امتحا ن میں

جس نےلکھی نہ حمد ونعت تا بہ زندگی
لکھتا ہےاب قصیدےوہ بندوں کی شان میں

کہنا ہےجووہ سوچ سمجھ کر کہا کرو
واپس نکل کےتیر نہ آیا کمان میں۔۔۔۔۔۔

دیکھا انھوں نےمیری طرف اورہنس دئے
کیا کہہ دیا رقیب نے چپکے سےکان میں

مانگی  ضرورہوگی دعا مرگ کی مرے
 آئی ہےیوں ہی غیر کےلکنت زبان میں۔

بس رہ گئےسنوارتےتاعمر بال و پر
پر عالیہ نہ اڑ سکے ہم آسمان میں

 دعا کرو کہ 
علیم خان فلکی 
دعا کرو کہ 
خدا کبھی وہ نہ  دن دکھائے

کبھی جب اپنے جگر کے ٹکڑے پہ پیار آئے
اسی کی صورت نظر میں گھومے
    جہاں کے کاموں کو جلد نپٹا کے گھر کو لوٹو
کہ جسکی خاطر کھپا کے نیندوں کو جاگتے ھو
جسے بٹھاکے تم اپنے سینے پہ کھیلتے ھو
جو دیکھہ لے اک جھلک تمہاری
خوشی سے بانہوں میں دوڑ آئے
جو مسکرائے تو کھل اٹھیں ھر طرف نظارے
جسے ھنساکر تم اپنے سارے ھی غم بھلادو 
   دعا کرو کہ خدا کبھی وہ نہ دن دکھائے
اسے پکارو تو وہ نہ آئے   
وہ پاس رہ کر بھی دور ھی ھو
تمہارے غم کو وہ چھو نہ پائے
   دعا کرو کہ خدا کبھی وہ نہ دن دکھائے 
تمام شب جب اداس تنہا رھو ادھر تم
ادھر وہ بے حس رھے تمہی سے
بہت سی باتیں تہمارا دل اس سے کہنا چاھے
مگر وہ مصروف اس قدر ھو
تمہاری حالت کو بھول جائے
اسے بٹھاکرجو پاس اپنے 
غم جہاں اس  سے کہنا چاھو
تو وہ کہیں اور اپنی دنیا میں لوٹ جائے
 دعا کرو کہ خدا کبھی وہ نہ دن دکھائے
محبتوں سے اسے بلاتے رھو مگر وہ
 تمہارے حصے کی چاھتیں بھی
کسی کی جھولی میں ڈال آئے 
 تم اک بھکاری بنے رھواور 
تمہاری جھولی محبتوں کا خراج لینے ترس ھی جائے
تمہارے حصے کی عزتوں کو 
کسی کے حصے میں بانٹ آئے
 
 دعا کرو کہ خدا کبھی وہ نہ دن دکھائے
ایک چھوٹی سی نظم " پچھتاتا ہوں دے کے قرض" پیش خدمت ہے 

دوست سے اک میں نے پوچھا کچھ پریشانی میں ہو ؟     -   بولے پچھتاتا ہوں دے کے قرض میں اک دوست کو 
ایک لاکھ اسسی  ہزار  روپے   جو میری جیب سے     -   اسکے  چہرے کی پلاسٹک  سرجری میں  لگ گۓ
یار    ان پیسوں کی  اس سے  آس  بھی   بیکار ہے      -    اب یہ مشکل ہے   - اسے   پہچاننا   دشوار    ہے  

محمد حامد سلیم حامد - جدہ
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحب اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رخ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
دے کے احساس زیاں تیرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتنئہ ملت بیضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے
-----------------------------------------------------
مفکر پاکستان اور شاعر اسلامی انقلاب
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمت اللہ علیہ
کا امت بیدار کے لیے ”معیار قیادت“۔ 
ایک مزاحیہ  "کنجوس کا خون " نظم پیش خدمت ہے

اک شیخ کو کنجوس نے خوں اپنا جب دیا       خوش ہو کے شیخ جی نے کی اک مرسڈیس عطا
پھر  ایک  بار  شیخ کو  درکار  خوں ہوا       -    لالچ  میں  کار   کی   وہی  کنجوس  خوں    دیا
لیکن یہ کیا کھجور کی چھوٹی سی ٹوکری        تحفے میں اب  کی  بار  تھی  کنجوس  کو  ملی
پوچھا جو شیخ سے کے یہ کیا معاملہ حضور -   اس  وقت کار  کی  عطا -  اس  بار  بس کھجور
بولے یہ شیخ جی کہ میاں روٹھتا کیوں ہے    -  اب میری رگوں میں بھی تو کنجوس کا خوں ہے

محمد حامد سلیم حامد - جدہ
 آج کاانتخاب
-------------------------------------------------------------------
شاعر :اختر حسین جعفری  
سرشکِ خوں، رُخِ مضموں پہ چلتا ہے تو اک رستہ نکلتا ہے
ندی دریا پہ تھم جائے
لہو نقطے پہ جم جائے تو عنوانِ سفر ٹھہرے
اسی رستے پہ سرکش روشنی تاروں میں ڈھلتی ہے
اسی نقطے کی سُولی پر پیمبر بات کرتے ہیں
مجھے چلنا نہیں آتا
شبِ ساکن کی خانہ زاد تصویرو! گواہی دو
فصیلِ صبحِ ممکن پر مجھے چلنا نہیں آتا
مِرے چشموں میں شورِ آب یکجا بر شگالی ہے
ندی مقروض بادل کی
میرا دریا سوالی ہے
رگِ حرفِ زبوں میں جو چراغِ خوں سفر میں ہے
ابھی اس نقطہً آخر کے زینے تک نہیں آتا
جہاں جلّاد کا گھر ہے
جہاں دیوارِصبحِ ذات کے رخنے سے نگہِ خشمگیں
بارُود کی چَشمک ڈراتی ہے
جہاں سُولی کے منبر پر پیمبر بات کرتے ہیں
اب اِن باتوں کے سِکّے جیب کے اندر کھنکتے ہیں کہ جن پر
قصرِ شاہی کے مناظر
اسلحہ خانوں سے جاری حکم کندہ ہیں
بھرے بازار میں طفلِ تہی کیسہ پریشاں ہے کہ اس کے پاوٌں
ٹکسالوں کے رستے سے ابھی نا آشنا ہیں
اور اس کا باپ گونگا ہے
ندی رک رک کے چلتی ہے
تکلّم رہن رکھنے سے سفر آساں نہیں ہوتا
ہُوا پسپا جہاں پانی
جہاں موجوں نے زنجیرِ وفا پہنی، سپر گرداب کی رکھ دی
عَلَم رکھے ، قلم رکھے
خفا بادل نے جن پایاب دریاوٌں سے منہ موڑا
جہاں تاراج ہے کھیتی
جہاں قریہ اجڑتا ہے
طنابِ راہ کٹتی ہے کہیں خیمہ اکھڑتا ہے
وہاں سے دُور ہے ندی
وہاں سے دُور ہے بچہ کہ اس کے پاوٌں
دریاوٌں کے رستے سے ابھی نا آشنا ہیں
اور اس کا باپ گونگا ہے
اسے چلنا نہیں آتا
فصیلِ صبحِ ممکن پر اسے چلنا نہیں آتا
سحر کے پاس ہیں منسوخ شرطیں صلحنامے کی
صبا ، درسِ زیاں آموز کی تفصیل رکھتی ہے
کسی تمثیل میں تم ہو
کسی اجمال میں ، مَیں ہوں
کہیں قرطاسِ خالی کا وہ بے عنوان ساحل ہے
جہاں آشفتگانِ عدل نے ہتھیار ڈالے ہیں
بہت ذاتیں ہیں صدموں کی
کئی حصے ہیں سینے میں نفس گم کردہ لمحے کے
کئی طبقات ہیں دن کے
کہیں صبحِ مکافاتِ سخن کے منطتقے میں تم مقیّد ہو
کسی پچھلے پہر کے صلحنامے کی عدالت میں
کڑی شرطوں پر اپنے دستخط کے روبُرو مَیں ہوں
سنو ، قرطاسِ خالی کے سپر انداز ساحل سے
ہَوا کیا بات کرتی ہے
اُدھر ، اُس دوسرے ساحل سے جو ملّاح آیا ہے
زمینیں بیچتی بستی سے کیا پیغام لایا ہے
کوئی تعزیر کی دھمکی؟
کوئی وعدہ رہائی کا؟
کوئی آنسو؟
کوئی چٹّھی ؟
-------------------------------------------------------------------پیشکش
سعید جاوید مغل
سعودی عرب - الریاض
January 19, 2011
--
آج کاانتخاب
-------------------------------------------------------------------
شاعر : مومن خان مومن
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج، راحت فزا نہیں ہوتا

تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا

اس نے کیا جانے، کیا کیا لے کر
دل کسی کام کا نہیں ہوتا

نا رسائی سے دم رکے تو رکے
میں کسی سے خفا نہیں ہوتا

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

حالِ دل یار کو لکھوں کیوں کر
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا

رحم کر، خصمِ جانِ غیر نہ ہو
سب کا دل ایک سا نہیں ہوتا

دامن اس کا جو ہے دراز تو ہو
دستِ عاشق رسا نہیں ہوتا

چارہء دل سوائے صبر نہیں
سو تمھارے سوا نہیں ہوتا

کیوں سنے عرضِ مضطر اے مومن
صنم آخر خدا نہیں ہوتا
-------------------------------------------------------------------پیشکش
سعید جاوید مغل
سعودی عرب - الریاض
January 15, 2011

--



GHAZAL

Khotey sikkon ki tarha sirf uchalta hi raha,
Main to jeeney key liye rooz sambhalta hi raha.
 
Ashiqi dard ka dariya hai ye mana lekin!
Gham-sey bachney key liye main gham-mey dhalta hi raha!
 
Mujhey maloom na thi manzil-e-maqsood magar!
Jazba-e-ishq main us raah per chalta hi raha!
 
Mera koocha kal shab phir tareek raha?
Raat bhar kamrey mey charaag to jalta hi raha!
 
Maot ka din hai muqarrar, ye sach hai phir bhi!
Meri mi'aad ka phir waqt kyun talta hi raha?
 
Uski yadon ney shab-e-gham main mujhey yun gheyra,
Neend aati to na thi main karwaten badalta hi raha!
 
Ab main toofan sey ulajhney ka hunar kya seekhon?
Main to saahil pey khadey khud yun phisalta hi raha!
 
Jis key aaney ka mainey barsoon intezaar kiya,
Uskey jaaney pey apney haath phir malta hi raha!
 
Kal meri bazm main aaya wo kiye rukh pey niqaab?
Deeda-e-yaar ko dil phir bhi machalta hi raha!
 
Gham-e-jaana ka sataya hon shab-o-rooz KALEEM,
Dard baqi tha jo seeney main nikalta hi raha!
Kaleem Hyderabadi

غزلیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر فریاد آزر

غزلیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر فریاد آزر


*
ارادہ کب تھا اس کا خود کو دریا میں ڈبونے کا
اسے بس شوق تھا بہتی ندی میں ہاتھ دھونے کا

سروں کی فصل کٹتے دیکھنا اس کی سیاست ہے
ہے اس کا مشغلہ صحنِ فضا میں زہر بونے کا

یہ تیرا ہی کرم ہے ورنہ کب یارا ہی تھا یارب !
مری نازک مزاجی کو غموں کے بار ڈھونے کا

ہوا کیا گر نگاہِ خامۂ تنقید ہے بے حس
مجھے خود بھی نہیں احساس اب کچھ اپنے ہونے کا

مجھے کب تلخیِ حالات نے موقع دیا جانم
سنہرے نرم رو الفاظ میں تجھ کو پرونے کا

جنابِ میرؔ بھی میری طرح مغموم تھے لیکن
مجھے موقع ہی کب ملتا ہے آزرؔ رونے دھونے کا

*
شکستہ آج کو کل سے جدا نہ کر پایا
میں مقبرے کو محل سے جدا نہ کر پایا

اُسے بھی خود پہ بڑا اعتماد تھا لیکن
وہ مشتری کو زحل سے جدا نہ کر پایا

میں خواہشوں کو قناعت پہ کر چکا راضی
نگاہِ صبر کو پھل سے جدا نہ کر پایا

ہزار چاہا کوئی اور صنف اپناؤں
میں شاعری کو غزل سے جدا نہ کر پایا

ہزار چاہا کہ دونوں میں رابطہ نہ رہے
پہ کیچڑوں کو کنول سے جدا نہ کر پایا

رواج شہر کے اپنا چکا مگر آزرؔ
مزاج دشت و جبل سے جدا نہ کر پایا
*
علم اتنا تھا کہ آئی ہے گزر جائے گی رات
کیا خبر تھی میرے ہی گھر پر ٹھہرجائے گی رات

کیا خبر تھی بیکراں تاریکیوں کے باوجود
ایک جگنو کی ضیا باری سے ڈرجائے گی رات

متحد ہوکر نہ سورج کی طرح چمکے تو پھر
رفتہ رفتہ جگنوؤں کے پر کتر جائیگی رات

جب لگے گا اُس کو خود اپنی ہی تاریکی سے خوف
آسماں کی مانگ پھر تاروں سے بھر جائے گی رات

ہونے ہی والا ہے مشرق سے اجالے کا ظہور
خود ہی مغرب کے اندھیروں میں اترجائے گی رات

آخرش کب تک یوں ہی ٹھہرا رہے گا وقت بھی
غم نہ کر آزرؔ کسی صورت گزر جائے گی رات

*
حویلیوں سے بھی چھپر عظیم ہوتے ہیں
کہیں مکان، کہیں گھر عظیم ہو تے ہیں

عظیم وہ نہیں لڑکر جو ملک فتح کرے
عظیم خود سے ہی لڑکر عظیم ہوتے ہیں

غرور کیجے نہ دستار کی بلندی پر
کہیں کلاہ، کہیں سر عظیم ہوتے ہیں

انہیں کو وقت بناتا ہے محترم اکثر
جو اس کی ٹھوکریں کھا کر عظیم ہوتے ہیں

زبانِ اردو ہے کتنی عظیم مت پوچھو
کہ جس کے سارے سخن ور عظیم ہوتے ہیں

جنہیں کہیں بھی کوئی پوچھتا نہیں آزر ؔ
وہ میری رائے میں اکثر عظیم ہوتے ہیں

GHAZAL

GHAZAL
Shab ka jaga hoon kuch der mujhey soney do,
Ashq Palkhon main simtey hain unhey roney do!
 
Waqt miljayega phir baad main kar lena sawaal!
Dard seenay main jo hota hai usey hooney do.
 
Uskey aaney ki koi soorat hai ab na koi ummeed?
Phir sey bholi huwi yadon main mujhey khoney do.
 
Ek musafir hon jisey manzil ka pata kuch bhi nahin!
Gham-e-dauran key lagey daag mujhey dhoney do.
 
Sakht lehjey sey yun usney kiya khoon-e-jigar,
Main sambhal jaon koi aisey mujhey khiloney do!
 
Tum khayalon main bhi letey nahin jab naam mera?
Apney khwabon main sahi khud ko mujhey chooney do!
 
Bikhar gaye hain jo moti yun tinka tinka,
Ishq ki door main unhey phir mujhey pironey do.
 
Mainey aangan main lagaye hain sabkey phool KALEEM,
Chahey badley main phir kanton key mujhey bichoney do!
 
Thanks & Regards,
KALEEM HYDERABADI 




         GHAZAL 
 
Zindagi Tangi-e-Tasalsul ka hunar rakhti hai,
Jab duwa dil se nikalti hai asar rakhti hai.
 
Mere naseeb main ruswaiyaan sahi lekin,
Her andheron pe ujaley to saher rakhti hai.
 
Yun to ghamon ka shumaar bahut mushkil hai dost,
Ek khoshi zahen per, kahin ummeed magar rakhti hai.
 
Apney kiye ka mustahiq, yaqinan her shaqs hai yahan,
Khuda ki rahmat to magar sab pe nazar rakhti hai.
 
Meri awaaz, dabi dabi thi, magar shayed suni usney?
Kyon yehi soonch, ab mere dil pe qaher rakhti hai?
 
Zakhm lagey hain kayee, tumhey kyunkar dikhaon main?
Meri ye rooh to bahut bardaasth-o-jigar rakhti hai.
 
Ye ek imtihaan hai, to khudsoz  na hona KALEEM,
Fateh momin ko faqad shukr-o-sabar rakhti hai.
 
 
Kaleem Hyderabadi




غزل براۓ تبصرہ
آج کی شب اداس اداس ہے چاند
پہنے  اک  ماتمی  لباس  ہے چاند
گاہ   چھپتا ہے ،گاہ  ابھرتا ہے
ہے کویٔ بات،بدحواس ہے چاند
خواب تھا وہ ،بڑا   عجیب سا خواب
میں فلک پر ہوں،  میرے  پاس ہے چاند
وہ فلک زاد ہے مگر، اۓ دل
ہجر زدگاں کےآس  پاس  ہے چاند
عمر اک رات،اور اماوس کی رات
بول اندھیارے!کس کو راس ہے چاند
غم کی شب  گویا  میر کا  دیوان
اور اسی کا اک اقتباس ہے  چاند
فایٔزہ  فضا
متحدہ عرب امارات
  


غزل: ڈاکٹر جاویدؔ جمیل
فکر و دانش کے مقامات ہیں کیسے کیسے
اُس کی قدرت کے نشانات ہیں کیسے کیسے

دل محبّت میں شرابور لبوں پہ نفرت
جانِ جاناں میں تضادات ہیں کیسے کیسے

شہر سے دور پہاڑوں میں کسی بستی میں
پیار کے گونجتے نغمات ہیں کیسے کیسے

دکھ بھی ہے، سُکھ بھی، محبّت بھی عبادات بھی ہیں
رات کے بطن میں حالات ہیں کیسے کیسے

رہنما جنکو بنایا ہے ہمیں لوگوں نے
ان کے پوشیدہ مفادات ہیں کیسے کیسے

منتشر رشتے، سکوں ختم، خطر ناک امراض
عیش و مستی کے مضّرات ہیں کیسے کیسے

اب عدالت تجھے ٹہرائے گی مجرم جاویدؔ
تیرے اپنوں کے بیانات ہیں  کیسے کیسے

 
مخلص: لیاقت علی خان


Ghazal by Dr Javed Jamil



Fikr-o daanish ke maqamaat haiN Kaise Kaise

Uski Qudrat ke nishaanaat haiN Kaise Kaise





Dil muhabbat meiN sarabor laboN pe nafrat

Jaan-e JaanaN meiN tazaadaat haiN Kaise Kaise



Shahr se door paharoN meiN kisi bastee meiN

Pyaar ke gooNjte naghmaat haiN Kaise Kaise



Dukh bhi hai sukh bhi muhabbat bhi ibaadaat bhi haiN

Raat ke batn meiN haalaat haiN Kaise Kaise



Rahnuma jin ko banaaya hai hameeN logoN ne

Unke posheeda mafaadaat haiN Kaise Kaise



Muntashir rishte, sakooN KHatm, KHatarnaak amraaz

Aish-o mastee ke muzirraat haiN Kaise Kaise



Ab adaalat tujhe THahrayegi mujrim Javed

Tere apnoN ke bayaanaat haiN Kaise Kaise






احمد مشتاق

درخت کاٹ لئے سائبان بیچ دیا


دری لپیٹ کے رکھ دی بساط الٹ ڈالی
چراغ توڑ دئے شمع دان بیچ دیا

خزاں کے ہاتھ خزاں کے نیاز مندوں نے
نوائے موسمِ گل کا نشان بیچ دیا

اٹھا جو شور تو اہلِ ہوس نے گھبرا کر
زمین لیز پہ دے دی، کسان بیچ دیا

یہی ہے بھوک کا عالم تو دیکھنا اک دن
کہ ہم نے دھوپ بھرا آسمان بیچ دیا

******
خون ٹھنڈا پڑ گیا، آنکھیں پرانی ہو گئیں

جس کا چہرہ تھا چمکتے موسموں کی آرزو
اس کی تصویریں بھی اوراقِ خزانی ہو گئیں

دل بھر آیا کاغذ خالی کی صورت کو دیکھ کر
جن کو کہنا تھا وہ سب باتیں زبانی ہو گئیں

جو مقدر میں تھا اس کو روکنا تو بس میں نہ تھا
ان کا کیا کرتے جو باتیں نا گہانی ہو گئیں

رہ گیا مشتاق دل میں رنگِ یادِ رفتگاں
پھول مہنگے ہو گئے قبریں پرانی ہو گئیں
-

شاید کسی کی چہرہ نمائی کا وقت ہے

کہتی ہے ساحلوں سے یہ جاتے سمے کی دھوپ
ہشیار، ندیوں کی چڑھائی کا وقت ہے

کوئی بھی وقت ہو، کبھی ہوتا نہیں  جدا
کتنا عزیز اس کو جدائی کا وقت ہے

کہتی ہے ساحلوں سے یہ جاتے سمے کی دھوپ
 شاید کسی کی چہرہ نمائی کا وقت ہے

میں نے کہا کہ دیکھو یہ میں، یہ ہوا، یہ رات
اس نے کہا کہ میری پڑھائی کا وقت ہے
٭٭٭

کسی نے یہ بقراط سے جا کے پوچھا
مرض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا
کہا " دکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا
کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا
مگر وہ مرض جس کو آسان سمجھیں
کہے جو طبیب اس کو ہذیان سمجھیں
سبب یا علامت گر ان کو سجھائیں
تو تشخیص میں سو نکالیں خطائیں
دوا اور پرہیز سے جی چرائیں
یونہی رفتہ رفتہ مرض کو بڑھائیں
طبیبوں سے ہر گز نہ مانوس ہوں وہ
یہاں تک کہ جینے سے مایوس ہوں وہ"
یہی حال دنیا میں اس قوم کا ہے
بھنور میں جہاز آ کے جس کا گھرا ہے
کنارہ ہے دور اور طوفان بپا ہے
گماں ہے یہ ہر دم کہ اب ڈوبتا ہے
نہیں لیتے کروٹ مگر اہلِ کشتی
پڑے سوتے ہیں بے خبر اہلِ کشتی
گھٹا سر پہ ادبار کی چھار رہی ہے
فلاکت سماں اپنا دکھلا رہی ہے
نحوست پس و پیش منڈلا رہی ہے
چپ و راست سے یہ صدا  آ رہی ہے
کہ کل کون تھے آج کیا ہو گئے تم
ابھی جاگتے تھے ابھی سو گئے تم
پر اس قومِ غافل کی غفلت وہی ہے
تنزل پہ اپنے قناعت وہی ہے
ملے خاک میں رعونت وہی ہے
ہوئی صبح اور خوابِ راحت وہی ہے
نہ افسوس انہیں اپنی ذلت پہ ہے کچھ
نہ رشک اور قوموں کی عزت پہ ہے کچھ
بہائم کی اور ان کی حالت ہے یکساں
کہ جس حال میں ہیں اسی میں ہیں شاداں
نہ ذلت سے نفرت نہ عزت کا ارماں
نہ دوزخ سے ترساں نہ جنت کے خواں
لیا عقل و دیں سے نہ کچھ کام انھوں نے
کیا دینِ برحق کو بدنام انھوں نے
وہ دیں جس نے اعدا کو اخواں بنایا
وحوش اور بہائم کو انساں بنایا
درندوں کو غمخوارِ دوراں بنایا
گڈریوں کو عالم کا سلطان بنایا
وہ خط جو تھا ایک ڈھوروں کا گلہ
گراں کر دیا اس کا عالم سے پلہ
عرب جس کا چرچا ہے یہ کچھ وہ کیا تھا
جہاں سے الگ اک جزیرہ نما تھا
زمانہ سے پیوند جس کا جدا تھا
نہ کشور ستاں تھا، نہ کشور کشا تھا
تمدن کا اس پر پڑا تھا نہ سایا
ترقی کا تھا واں قدم تک نہ آیا
نہ آب و ہوا ایسی تھی روح پرور
کہ قابل ہی پیدا ہوں خود جس سے جوہر
نہ کچھ ایسے سامان تھے واں میسر
کنول جس سے کھل جائی دل کے سراسر
نہ سبزہ تھا صحرا میں پیدا نہ پانی
فقط آبِ باراں پہ تھی زندگانی
زمیں سنگلاخ اور ہوا آتش افشاں
لوؤں کی لپٹ بادِ صرصر کے طوفاں
پہاڑ اور ٹیلے سراب اور بیاباں
کھجوروں کے جھنڈ اور خارِ مغیلاں
نہ کھیتوں میں غلہ نہ جنگل میں کھیتی
عرب اور کل کائنات اس کی یہ تھی
نہ واں مصر کی روشنی جلوہ گر تھی

جون ایلیا



وہ اہلِ حال جو خود رفتگی میں آئے تھے
بلا کی حالتِ شوریدگی میں آئے تھے

کہاں گئے کبھی ان کی خبر تو لے ظالم
وہ بےخبر جو تیری زندگی میں آئے تھے

گلی میں اپنی گِلہ کر ہمارے آنے کا
کہ ہم خوشی میں نہیں سرخوشی میں آئے تھے

کہاں چلے گئے اے فصلِ رنگ و بُو وہ لوگ
جو زرد زرد تھے اور سبزگی میں آئے تھے

نہیں ہے جن کے سبب اپنی جانبری ممکن
وہ زخم ہم کو گزشتہ صدی میں آئے تھے

تمہیں ہماری کمی کا خیال کیوں آتا
ہزار حیف ہم اپنی کمی میں آئے تھے

زہرِ ناب کا دن

**جاوید معنی کی وفات پر**
[/i]
ہم سے بےواسطہ نہیں ہے وہ
وہ یہیں تھا یہیں کہیں ہے وہ
کر گیا ہے وہ رَم کسی جانب
اک غزالِ غزل زمیں ہے وہ
میرا جاوید، معنی جاوید
خود بھی ایک شعر دل نشین ہے وہ
میں ہوں اپنا حریفِ سخت کماں
روزِ ہیجا مری کمیں ہے وہ
در شبِ کوچ یارِ من فروخت
کہ مرا سالکِ گزیں ہے وہ
آخرش میرا ہی تو ہے شاگرد
سب جہاں ہیں، وہیں نہیں ہے وہ
کیسے میں سہہ سکوں گا ہجر اس کا
کہ میرا ناز و نازنیں ہے وہ
خاک گنجینہء زمیں ہو خاک
زیرِ گنجینہء زمیں ہے وہ
غم میں غالب کا سہہ رہا ہوں آج
آج عارف کا ہم نشین ہے وہ
اب زمیں بوس آستاں ہوں میں
آسماں مرتبہ جبیں ہے وہ
اُس نے مارا ہے اپنے مرشد کو
کِس بَلا کا جہنمیں ہے وہ
اب رگوں میں مری بچا ہے جو خوں
مالِ مژگاں وآستیں ہے وہ
پڑ گیا چین، دل ہوا یک سو
وہ جو تھا اب کہیں نہیں ہے وہ
نالہ ہا، شورہا، تپیدن ہا
میرے ہوتے کفن گزیں ہے وہ
آج کا دن نہیں شراب کا دن
آج ہے *جون* زہرِ ناب کا دن



غزل
عذرا نقوی

ائیرپورٹ، اسٹیشن، سڑکوں پر ہیں کتنے سارے لوگ
جانے کون سے سُکھ کی خاطر پھرتے مارے مارے لوگ

شام گئے یہ منظر ہم نے ملکوں ملکوں دیکھا ہے
گھر لوٹیں بوجھل قدموں سے بجھے ہوئے انگارے لوگ

پُر نم آنکھوں، بوجھل دل سے کتنی بار وداعی لی
کتنا بوجھ لئے پھرتے ہیں ہم جیسے بنجارے لوگ

وہ کتنے خوش قسمت ہیں جو اپنے گھروں کو لوٹ گئے
شہروں شہروں گھوم رہے ہیں ہم حالات کے مارے لوگ

رات گئے یادوں کے جنگل میں‌ دیوالی ہوتی ہے
دیپ سجائے آجاتے ہیں بھولے بسرے پیارے لوگ

بچپن کتنا پیارا تھا جب دل کو یقیں آجاتا تھا
مرتے ہیں تو بن جاتے ہیں آسمان کے تارے لوگ
-- 

Ghazal by Dr Javed Jamil



Jaane ye kaisi bhool bhulayyoN meiN kho gaya

Insaan ab kahaN raha insaan to gaya



Hum ne chahaar samt kabootar uRa diye

Aur yeh samajh ke baiTH gaye amn ho gaya



bachchoN ki koshisheiN theeN abas aur ek zaeef

sirf eik pal meiN sooi meiN dhaaga piro gaya



maiN harf jarf pahle to bikhraa phir uske ba’d

tarteeb-e KHaas meiN jo mila she’r ho gaya



javed eik pal ki nadaamat ka tha kamaal

rahmat ka abr saare gunaahoN ko dho gaya


      غزل مسلسل
حق کہے جانےکاحق ہے،تویہ جرٔات کرتےہیں
 کوئی بھی فتویٰ ہو صادرہم پہ ہمّت کرتے ہیں۔

ڈھنگ سے پڑھنا نہیں آتا ،خطابت کرتے ہیں
علم ادھ کچرا ہو اپنا پھر بھی حجّت کرتے ہیں

 عقل و دانش وہ جوکی اللّھ نے ہم کو کیاعطا۔۔
خرچ کرنا چا ہئےجس جا پہ خسّت کرتے ہیں

مثل اک ریشم کےکیڑےکے ہی اپنے خول میں
بنکےتانےبانےہی سمجھےکہ جدّت کرتے ہیں

نام پر مذہب کے کرتےہیں اکھاڑے بازیاں۔۔۔۔۔۔
حق پرستی کے بہا نےخوب بدعت  کرتے ہیں

جو کہا ملا نے بس سمجھے اسے حکم خد ا
جاۓ تکمیل فرائض فکر جنّت کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

اب تو محفل ہو رضیّہ یا کہ فورم ہو کوئ۔۔۔۔۔۔
ہم نواؤں کو ہی لے کرساتھ شرکت کرتے ہیں

از
رضیّہ کاظمی الہ آ بادی
5 کیلڈر کورٹ،پرنسٹن،
نیو جرسی
امریکہ
 
مزاحیہ نظم - مرغا نمبر پانچ






اک دل پھینک عاشق گۓ معشوق سے ملنے کو - سونے کی لاکٹ بھی لے گۓ گفٹ میں دینے کو


قسمت اچھی تھی گھر میں لیلیٰ ہی اکیلی تھیں - جی بھر باتیں کیں اک دوجے کی تعریفیں کیں


عاشق نے چاۓ کی اک خواہش لیلیٰ سے کی - کب انکار تھا لیلیٰ کو وہ گفٹ جو پائی تھی


کچن میں وہ تو چلی گئیں پھر چاۓ بنانے کو - اور یہ ٹی وی دیکھ رہے تھے وقت بتانے کو


لیلیٰ کے موبایل پے جب اک نظر پڑی اسکی - سوچا دیکھوں سیف مجھے کس نام سے کی ہوگی


جانو ہوگا - جانم - دلبر - اونلی ون ہوگا - یا مائی ڈیر - ڈارلنگ وارلنگ - کچھ ایسا ہوگا


ڈائل کیا موبائل سے اپنے - نمبر پر اسکے - بیتابی کے ساتھ خوشی کی لہر تھی چہرے پے


دیکھا جب سکرین پے - اسکے تن میں لگ گئی آنچ - لکھا تھا اس پر یہ - " کالنگ مرغا نمبر پانچ "






محمد حامد سلیم حامد


Jeddah






آذر بھي ہے ، صنـم بھي ، اوزار بھي ہے


جہاں کو پھر سے براہيمي انتظار بھي ہے






کــو‎‍‌‎ئي نــہ آئيـــگا اب آسمــان دنيـــا سے


تيرے وجود سے مسيحي کارزار بھي ہے






جہاں ميں ڈھونڈتا پھرتا ہے جسکو تو واعظ


تيري خــودي ميں پوشيدہ وہ کردار بھي ہے






يــہ خـــون آشــامـئ کــواکب آج کہتي ہيں


نظـــر اٹھــا کــہ قيــامت کا بازار بھي ہے






جوج ماجوج کے دجال کے لشکر ہر ســو


تيـــري زميں پــہ اب انقلاب زار بھي ہے






ہے کيسي کرب کي منزل ميں نوع انساني


وطن ميں رہ کہ پھر غريب الديار بھي ہے






جہــاں سے آ‏ئي تھي ٹھنڈي ہــوا مدينہ ميں


اسي زميں کو ميرے آقا کا انتظار بھي ہے






کہ آرہي ہيں صــدائيں اندھيري دنيــا سے


شب قـــدر کا اب مطلــع انفجــار بھي ہے






رہيـــگا آج جو قرآن تيــرے ہاتہــوں ميـں


جہان نو کا تو حاکم بھي ، رازدار بھي ہے



از : سيد ھاشم الدين ھاشم

Ghazal by Dr Javed Jamil





Kaisa saamaN Kaisi manzil kaisi rah kaisaa safar

Humsafar hi jab naheeN hai kaise phir hoga safar



Nafs-e ammaarah se nafs-e mutmainna tak ki raah

aatasheeN mausam zameeN purKHaar aur tanha safar



Hasrat-e deedaar aisee faislakun thi meree

lamHa bhar meiN hogayaa ek umr saa lamba safar



pahle manzil saamne thee ab nazar se door hai

jaane kaise kya hua kis moR par bhatka safar



shaana dene ke liye aye dosto sad shukriya

ab utaaro dafn kardo ho chukaa poora safar



in chataanoN meiN kahaN ye Hosla rokeiN mujhe

karta hooN javed maiN bhee soorat-e daryaa safar

کیسا ساماں، کیسی منزل،کیسی رِہ کیسا سفر
ہمسفر ہی جب نہیں ہے کیسے پھر ہوگا سفر

نفسِ امّارہ سے نفسِ مُطمئنہ تک کی راہ
آتشیں موسم، زمیں پُر خاراور تنہا سفر

حسرتِ دیدار ایسی فیصلہ کُن تھی مِری
لمحہ بھر میں ہو گیا اِک عمر سا لمبا سفر

پہلے منزل سامنے تھی اب نظر سے دور ہے
جانے کیسے کیا ہوا کس موڑ پہ بھٹکا سفر

شانہ دینے کے لئے اے دوستو صد شکریہ
اب اتارو دفن کر دو ہو چکا پورا سفر

ان چٹانوں میں کہاں یہ حوصلہ روکیں مجھے
کرتا ہوں جاویدؔ میں بھی صورتِ دریا سفر


جناب راحت اندوری کے میگا مشاعرے میں پڑھے گئے کلام سے منتخب اشعار :

ہمیں حقیر نہ جانو ہم اپنے نیزے سے
غزل کی آنکھ میں کاجل لگانے والے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھروں کے دھنستے ہوئے منظروں میں رکھّے ہیں
بہت سے لوگ یہاں مقبروں میں رکھّے ہیں
ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پہ طنز نہ کر
ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھّے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جو منصبوں کے پجارہ پہن کے آتے ہیں
کلاہ ٹوپ سے بھاری پہن کے آتے ہیں

امیرِ شہر تِری طرح قیمتی پوشاک
مِری گلی میں بھکاری پہن کے آتے ۃین

یہی عقیق تھے شاہوں کے تاج کی زینت
جو اُنگلیوں میں مداری پہن کے آتے ہیں

ہمارے جسم کے داغوں پہ تبصرہ کرنے
قمیض لوگ ہماری پہن کے آتے ہیں

عبادتوں کا تحفّظ بھی اُن کے ذمّے ہے
جو مسجدوں میں سفاری پہن کے آتے ہیں

یہ مسجدوں کی سیاست سیاہ چشمہ ہے
جسے امام بخاری پہن کے آتے ہیں

رباعیات ۔ جوش ملیح آبادی

پہلو میں مِرے دیدہٗ پُرنم ہے کہ دل
معبود! یہ مقیاسِ تپِ غم ہے کہ دل
ہو ذرّہ بھی کج تو بال پڑ جاتا ہے
یہ شیشئہ ناموسِ دو عالم ہے کہ دل


**************

زاہد رہِ معرفت دکھا دے مجھ کو
یہ کس نے کہا ہے کہ سزا دے مجھ کو
کافر ہوِں؟ یہ تو ہوئی مرض کی تشخیص
اب اس کا بھی علاج بتا دے مجھ کو


************
اپنی خلوت سرا میں جائوں کیوں کر
خود کو اپنی جھلک دکھائوں کیوں کر
ہے سب سےبڑا فاصلہ قُربِ کامل
اپنی ہستی کا بھید پائوں کیوں کر


*************

اپنی ہی غرض سے جی رہے ہہں جو لوگ
اپنی ہی عبائیں سی رہے ہیں جو لوگ
اُن کو بھی کیا شراب پینے سے گُریز؟
انسان کا خون پی رہے ہیں جو لوگ


**************

کیا پھر یہی کھونا پانا ہو گا؟
پھر نازِ خرد دل کو اٹھانا ہوگا؟
سُنتے ہیں کہ اے بیخودی کُنجِ لحد
پھر حشر کے دن ہوش میں آنا ہوگا؟

**************
آغاز ہی آغاز ہے، اور کچھ بھی نہیں
انجام بس اِک راز ہے، اور کچھ بھی نہیں
کہتی ہے جسے نغمئہ شادی دُنیا
اِک کرب کی آواز ہے، اور کچھ بھی نہیں
 ***********************************
****************
***********************************


Ghazal 
by 
Dr Javed Jamil


ba-sad KHuloos bara-e sawaab paRH DaaleiN

kitaab-e IshQ ka har eik baab paRH DaaleiN



aNdhera aane pe yeh Ilm roshnee de ga

charaaGH bujhne se pehle kitaab paRH DaaleiN



pas-e Hijaab ruKH-e maahnaaz paRH na sake

ho aaj izn agar be-hijaab paRH DaaleiN



Ajab naheeN ke naya Azm dil meiN paida ho

Hamaari kya thee kabhi aab-o taab paRH DaaleiN



ZameeN pa bhee usee meezaan ko kareiN Qayam

Falak pa darj KHuda ka KHitaab paRH DaaleiN



Qayaas keejiye kya kya sawaal aayeNge

Sawaal aane se pehle jawaab paRH DaaleiN



Shuroo’ god se ho gor tak rahe jaari

Hisaab rakhna hai kya be-hisaab paRH DaaleiN



Mutaala’a ho maqaale ka hai ye haQ Javed

Mile na waqt to lubb-e lubaab paRH DaaleiN

ايک غزل براے تنقيد و اِصلاح
غـــــــــزل
 
پتھّر اُٹھا ليا ؛ تو کبھي شيشہ بنا ليا؟
لوگون نے ميرے سچ کا تماشہ بنا ليا!
 
مجبوريون کا چَہرے پر ھوتا ہے يون آثر!
کے آزوردگي و خار کا خُد نقشہ بنا ليا؟
 
آنسون جھلک رہے تھے آنکھون سے مُسلسل!
پھر کانٹون پے کسي پھول نے درخشان بنا ليا؟
 
مايوسيون کے ڈر سے کَل شب وہ بدنصيب!
تاريک اَندھيرون مين ايک گوشہ بنا ليا؟
 
صديون کا مسافر کوي اَنجامِ سفر پَر،
پھر اِبتدا ے سفر کو توشہ بنا ليا!
 
مين زندہ رہا ہون صبر اَور اُمّيد پر کليم’
ہم سايا توکّل کو جو ھميشہ بنا ليا

غزل: ڈاکٹر جاوید جمیل

بصد خلوص برائے ثواب پڑھ ڈالیں
کتابِ عشق کا ہر ایک باب پڑھ ڈالیں

اندھیرا آنے پہ یہ علم روشنی دے گا
چراغ بجھنے سے پہلے کتاب پڑھ ڈالیں

پسِ حجاب رُخِ ماہ ناز پڑھ نہ سکے
ہو آج اِذن اگر بے حجاب پڑھ ڈالیں

عجب نہیں کہ نیا عزم دل میں پیدا ہو
ہماری کیا تھی کبھی آب و تاب پڑھ ڈالیں

زمیں پہ بھی اُسی میزان کو کریں قائم
فلک پہ درج خدا کا خطاب پڑھ ڈالیں

قیاس کیجئے کیا کیا سوال آئینگے
سوال آنے سے پہلے جواب پڑھ ڈالیں

شروع  گود سے ہو گور تک رہے جاری
حساب رکھنا ہے کیا بے حساب پڑھ ڈالیں

مطا لعہ ہو مقالے کا حق یہ ہے جاوید
ملے نہ وقت تولُبِّ لُباب پڑھ ڈالیں


ba-sad KHuloos bara-e sawaab paRH DaaleiN
kitaab-e IshQ ka har eik baab paRH DaaleiN

aNdhera aane pe yeh Ilm roshnee de ga
charaaGH bujhne se pehle kitaab paRH DaaleiN

pas-e Hijaab ruKH-e maahnaaz paRH na sake
ho aaj izn agar be-hijaab paRH DaaleiN

Ajab naheeN ke naya Azm dil meiN paida ho
Hamaari kya thee kabhi aab-o taab paRH DaaleiN

ZameeN pa bhee usee meezaan ko kareiN Qayam
Falak pa darj KHuda ka KHitaab paRH DaaleiN

Qayaas keejiye kya kya sawaal aayeNge
Sawaal aane se pehle jawaab paRH DaaleiN

Shuroo god se ho gor tak rahe jaari
Hisaab rakhna hai kya be-hisaab paRH DaaleiN

Mutaalaa ho maqaale ka hai ye haQ Javed
Mile na waqt to lubb-e lubaab paRH DaaleiN

                       *****************************    
نظیر اکبر آبادی
اس کے شرارِ حسن نے، شعلہ جو اک دکھا دیا
طور کو سر سے پاؤں تک، پھونک دیا جلا دیا
پھر کے نگاہ چار سو، ٹھہری اسی کے رو برو
اس نے تو میری چشم کو، قبلہ نما بنا دیا
میرا اور اس کا اختلاط، ہو گیا مثلِ ابر و برق
اس نے مجھے رلا دیا، میں نے اسے ہنسا دیا
میں ہوں پتنگِ کاغذی، ڈور ہے اس کے ہاتھ میں
چاہا اِدھر گھٹا دیا، چاہا اُدھر بڑھا دیا
تیشے کی کیا مجال تھی، یہ جو تراشے بے ستوں
تھا وہ تمام دل کا زور، جس نے پہاڑ ڈھا دیا
شکوہ ہمارا ہے بجا، مفت بروں سے کس لئے
ہم نے تو اپنا دل دیا، ہم کو کسی نے کیا دیا
سن کے یہ میرا عرضِ حالِ، یار نے یوں کہا نظیر
چل بے زیادہ اب نہ بک، تو نے تو سر پھرا دیا
  
سید اعجاز شاہین ، دبئ ،متحدہ عرب امارات
  

آج کاانتخاب
-------------------------------------------------------------------
شاعر : چراغ حسن حسرت
یا رب غمِ ہجراں میں‌ اتنا تو کیا ہوتا
جو ہاتھ جگر پر ہے وہ دستِ دعا ہوتا

اک عشق کا غم آفت اس پہ یہ دل آفت
یا غم نہ دیا ہوتا یا دل نہ دیا ہوتا

ناکامِ تمنا دل اس سوچ میں‌رہتا ہے
یوں ہوتا تو کیا ہوتا، یوں ہوتا تو کیا ہوتا

امید تو بندھ جاتی تسکین تو ہو جاتی
وعدہ نہ وفا کرتے وعدہ تو کیا ہوتا

غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سناتم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا، کچھ ہم سے سنا ہوتا
-------------------------------------------------------------------پیشکش
سعید جاوید مغل
سعودی عرب - الریاض
       
 آج کاانتخاب
-------------------------------------------------------------------
شاعر : حفیظ جالندھری
حفیظ اہل ادب کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
  
ابو الاثر حفیظ جالندھری. پاکستان سے تعلق رکھنے والے نامور شاعر اور نثرنگار تھے۔ پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق کی حیثیت سے شہرتِ دوام پائی۔ ہندوستان کے شہر جالندھر میں 14 جنوری 1900ء کو پیدا ہوئے۔  آزادی کے وقت 1947ء میں لاہور آ گئے۔ آپ نے تعلیمی اسناد حاصل نہیں کی، مگر اس کمی کو انہوں نے خود پڑھ کر پوری کیا۔ انھیں نامور فارسی شاعر مولانا غلام قادر بلگرامی کی اصلاح حاصل رہی۔ آپ نے محنت اور ریاضت سے نامور شعرا کی فہرست میں جگہ بنا لی۔
  
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

آخر کوئی صورت تو بنے خانہٴ دل کی
کعبہ نہیں بنتا ہے تو بت خانہ بنا دے

مجھے شاد رکھنا کہ ناشاد رکھنا
مرے دیدہ و دل کو آباد رکھنا
ملیں گے تمہیں راہ میں بت کدے بھی
ذرا اپنے اللہ کو یاد رکھنا

عشق نہ ہو تو واقعی موت نہ ہو تو خودکشی
یہ نہ کرے تو آدمی آخر کار کیا کرے
-------------------------------------------------------------------پیشکش
سعید جاوید مغل
سعودی عرب - الریاض

 آج کاانتخاب
  کی درخواست پر (دبئی) محترم جناب طاہر منیر طاہر
-------------------------------------------------------------------
شاعر : ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ 
نگاہِ فقر میں شانِ سکندری کیا ہے
خراج کی جو گدا ہو ، وہ قیصری کیا ہے
بتوں سے تجھ کو امیدیں ، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنھیں
خبر نہیں روش بندہ پروری کیا ہے
فقط نگاہ سے ہوتا ہے فیصلہ دل کا
نہ ہو نگاہ میں شوخی تو دلبری کیا ہے
اسی خطا سے عتابِ ملوک ہے مجھ پر
کہ جانتا ہوں مآلِ سکندری کیا ہے
کسے نہیں ہے تمنائے سروری ، لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے
خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرا کیا ہے ، شاعری کیا ہے
''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''''
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں
گراں بہا ہے تو حفظ خودی سے ہے ورنہ
گہر میں آبِ گہر کے سوا کچھ اور نہیں
رگوں میں گردشِ خوں ہے اگر تو کیا حاصل
حیات سوزِ جگر کے سوا کچھ اور نہیں
عروسِ لالہ! مناسب نہیں ہے مجھ سے حجاب
کہ میں نسیمِ سحر کے سوا کچھ اور نہیں
جسے کساد سمجھتے ہیں تاجرانِ فرنگ
وہ شے متاعِ ہُنر کے سوا کچھ اور نہیں
بڑا کریم ہے اقبال بے نوا لیکن
عطائے شعلہ شرر کے سوا کچھ اور نہیں
-------------------------------------------------------------------پیشکش
سعید جاوید مغل
سعودی عرب - الریاض
January 17, 2011
--

 آج کاانتخاب
-------------------------------------------------------------------
شاعر : افتخار عارف
شہر گل کے خس و خاشاک سے خوف آتا ہے
جس کا وارث ہوں اسی خاک سے خوف آتا ہے
شکل بننے نہیں پاتی کہ بگڑ جاتی ہے
نئ مٹی کو چاک سے خوف آتا ہے
وقت نے ایسے گھمائے افق ، آفاق کہ بس
محور گردش سفاک سے خوف آتا ہے
یہی لہجہ تھا کہ معیار سخن ٹھہرا تھا
اب اسی لہجئہ بے باک سے خوف آتا ہے
آگ جب آگ سے ملتی ہے تو لو دیتی ہے
خاک کو خاک کی پوشاک سے خوف آتا ہے
قامتِ جاں کو خوش آیا تھا کبھی خلعتِ عشق
اب اسی جامئہ صد چاک سے خوف آتا ہے
کبھی افلاک سے نالوں کے جواب آتے تھے
ان دنوں عالم افلاک سے خوف آتا ہے
رحمتِ سیدِ لولاک پہ کامل ایمان
امتِ سیدِ لولاک سے خوف آتا ھے
-------------------------------------------------------------------پیشکش
سعید جاوید مغل
سعودی عرب - الریاض
January 16, 2011
 
عـــــــــــــــــــــــــــــــــزل
 
 اے اللہ تو ہي حرف ے نگہبان ہے ميرا،
مانگون مين تجھہ ہي سے يہي اِيمان ہے ميرا
 
آيا ہون جب دُنيا مين تن و تنھاء اَکيلا!
جاءون جو جہان سے تو کِيا سامان ہے ميرا؟
 
جنّت عزم و توحيد ے کامِل سے ہے حاصل
بھٹکون جو اَگر راہ سے تو نقسان ہے ميرا
 
پھيلا ديا جب نورے رسالت سے محمّدنے اُجالا
تو چين وعرب اَورھنـد و خُراسـان ہے ميرا
 
آنکھين ہين طلب گار ے کرم؛ دَست دُعا گوہ!
ھو تسکين ے اَلم دِل يہ پريشان ہے ميرا
 
نہ صيّاد، نہ ظالم کوئي، اَور نہ وہ گدائي!
حقيقت تو يہ کہ دُشمن شيطان ہے ميرا
 
سيد نہين، نہ شيخ بھي، اَور نہ خان ہون کوئي؟  
اُرف و لقب  تو صِرف مُسلمان ہے ميرا
 
تفريق ستمگر ہے جب تاريخ ے عَزل سے!
پھر کافي يہي کہ سنّت و قرآن ہے ميرا!
 
توبہ سے در گُزر ھوا دُنيا مين ہر بشر
پُر اَفسوز ہون کے قلب تو اِنسان ہے ميرا
 
کہہ دون کليـــم سب سے مين آواز ے با بُلنّد!
مسلم ہون مين آور دِل بھي مسلمان ہے ميرا
 
کليم حيدرآبادي

Khus-hali thi us shaher ki purjoosh fizaa main
Bikhri huwi her samt thi khusboo bhi hawa main
 
Thi juma'a ki salaat ki takbeeren azaan main
Logon ka ek hujoom tha masjid-e-haza main
 
Madhoosh they momin sabhi dawat-e-khuda main
Kham kiye siroon ko ikhlas-o-duwaa main
 
Larzish na thi khadmon main, na unki adaa main
Kaisa ye mo'jezah tha merey rab ki nidaa main
 
Phir tabdeel achanak huwey woh lamhey khizaa main!
Ek bijli si chamki ho koi jaisey samaa main!
 
Bhagdad mach gayee yun phir her soo-e-giraan main!
Chooti kisi ki topiyaan, to kisi ke amamain!
 
Yun jal gaye masoom kayee leher-e-shamaa main!
Phir baktey rahey qayideen janey kya kya bayaan main!
 
Na tha aisa manzer kabhi zehn-o-gumaan main!
Ya rab kab hooga aman tere jahaan main?
 
Qatil chupey phirey hai kya her ahl-e-zamaan?
Ab josh hi kahaan hai bachoon main jawaan main?
 
KALEEM to dhoondta hai kya ankhon ki ayaan main?
Jumbish kidhar sey laayega ab murdaoon ki zubaan main?
KALEEM HYDERABADI Riyadh, Kingdom of Saudi Arabia
Khus-hali thi us shaher ki purjoosh fizaa main
Bikhri huwi her samt thi khusboo bhi hawa main
 
Thi juma'a ki salaat ki takbeeren azaan main
Logon ka ek hujoom tha masjid-e-haza main
 
Madhoosh they momin sabhi dawat-e-khuda main
Kham kiye siroon ko ikhlas-o-duwaa main
 
Larzish na thi khadmon main, na unki adaa main
Kaisa ye mo'jezah tha merey rab ki nidaa main
 
Phir tabdeel achanak huwey woh lamhey khizaa main!
Ek bijli si chamki ho koi jaisey samaa main!
 
Bhagdad mach gayee yun phir her soo-e-giraan main!
Chooti kisi ki topiyaan, to kisi ke amamain!
 
Yun jal gaye masoom kayee leher-e-shamaa main!
Phir baktey rahey qayideen janey kya kya bayaan main!
 
Na tha aisa manzer kabhi zehn-o-gumaan main!
Ya rab kab hooga aman tere jahaan main?
 
Qatil chupey phirey hai kya her ahl-e-zamaan?
Ab josh hi kahaan hai bachoon main jawaan main?
 
KALEEM to dhoondta hai kya ankhon ki ayaan main?
Jumbish kidhar sey laayega ab murdaoon ki zubaan main?
KALEEM HYDERABADI Riyadh, Kingdom of Saudi Arabia

Baarish huee to phuloN ke tan chaak ho gaye
Mausam ke haath  bheeg ke saffaak ho gaye
Baadal ko kya khabar hai k baarish ki chaah meN
Kitne buland-o-baala shajar khaak ho gaye
Jugnu ko din ke waqt parakhne ki zidd kareN
Bachche hamaare ‘ahd ke  chaalaak ho gaye
Lehra rahi hai barf ki chaadar hata ke ghaas
Sooraj ki shah pe tinke bhi bebaak ho gaye
Sooraj-dimaag log bhi iblaagh-e-fikr mein
Zulf-e-shab-e-firaaq ke pechaak ho gaye
Jab bhi ghareeb-e-shehar se kuch guftagu huee
Lehje hawa-e-shaam ke namnaak ho gaye
Saahil pe jitne aabguzeeda thhay sab ke sab
Dariya ke rukh badalte hi tairaak ho gaye

Your Brother in faith,
Javeed Iqbal Sait

 آج کاانتخاب
-------------------------------------------------------------------
شاعر : احسن مارہروی
اور کیا محبت میں حال زار ہستی ہے
سر وبالِ گردن ہے، جان بارِ ہستی ہے

دل اِدھر ہے پژمردہ، جاں اُدھر ہے افسردہ
کس کو ان حوادث پر اعتبار ہستی ہے

آسماں اسے پیسے، آپ اس کو ٹھکرائیں
پائمال صد آفت، خاکسارِ ہستی ہے

سینکڑوں تمنائیں دم بدم کھٹکتی ہیں!
دل نہیں ہے پہلو میں ، خار زارِ ہستی ہے

غنچہ مسکراتے ہی پھول بن کے مرجھایا!
یہ فضائے عالم ہے، یہ بہارِ ہستی ہے

کچھ سکون حاصل ہو، زندگی میں ناممکن
ہر نفس سے وابستہ، انتشار ہستی ہے

سب نمائشیں وقتی، سب حقیقتیں فرضی
جس قدر زمانے میں کاروبارِ ہستی ہے

کوئی کیا ہنسے احسن جبکہ دہر فانی میں
سرخوش مسرت بھی سوگوارِ ہستی ہے
-------------------------------------------------------------------پیشکش
سعید جاوید مغل
سعودی عرب - الریاض
January 18, 2011
--


-- 
غزل ۔۔۔شفیق مراد
حالتِ اضطراب میں رکھا 
عمر بھر پیچ و تاب میں رکھا
دل کی پرتیں شمار کرتا رہا 
دل کو دل کی کتاب میں رکھا
کس کی خوشبو چمن میں پھیلی ہے 
حسن کسکا گلاب میں رکھا 
بے یقینی میں عمر کاٹی ہے 
ہر حقیقت کو خواب میں رکھا
لکھ کے مصرعہ ہر اک ادا پہ تری
شاعری کی کتاب میں رکھا 
جب بھی سوچا ہے تم کو جانِ مراد
لفظِ عزت مآب میں رکھا




شفیق مراد -جرمنی
Tel:0049-177-50 60 70 4


کوئی  جھوٹا  نہیں  شفیق مراد
سارے سچےّ ہیں کیا تماشا ہے
On My Own Birthday (Feb,25)
**************************
Today, just as  February, 25 dawned,
My wife reminded, it is my birthday;
If  the order of this date is changed,
It will be the year when I was born.
Those days are still fresh in my mind,
When I wished to grow  fast  and fast;
Now the word ‘elder’ is like a poison,
As I have seen more than fifty autumns.
How cruel , it sounded to my ears,
When long back, a boy called me ‘uncle’;
Now, with my daughter having a babe,
Even ‘uncle’ gives a feeling, I am young.
 Full of intrigue and mystery is the life,
 I wanted to open its knots, but why;?
 When I have no power to  stop its pace,
 Stressing my nerves will deepen my pain.
 What  makes me  anguished is my past,
Which has nothing, but evils and sins;
How to erase it, must  be my only worry,
This puzzle of life, I can never solve.
Today ,let me  pray to my Guardian Lord,
To forgive all my wrongs and misdeeds;
Let me repent  with a  weeping   heart,
To make a solemn vow to lead a pious life.
*************************************
Dr. Mustafa Kamal Sherwani,LL.D.
Lucknow , U.P. India
+91-9919777909
+91-522-2733715
ہوا کے رُخ سے وہ بھی ہو گئے لاچار چٹکی میں
ہوا کے رُخ بدل دیتے تھے جو اخبار چٹکی میں

کبھی اندھیار چٹکی میں ، کبھی اُجیار چٹکی میں
کبھی انکار چٹکی میں ، کبھی اقرار چٹکی میں

بھلے مل جائے گا ہر چیز کا بازار چٹکی میں
نہیں بِکتا کبھی لیکن کوئی خوددار چٹکی میں

بہت تھے ولولے دل کے مگر اب سامنے ان کے
اُڑن چھو ہو گئی ہے طاقتِ گفتار چٹکی میں

عجب تقریر کی ہے رہنما نے امن پر یارو
نکل آئے ہیں چاقو تیر اور تلوار چٹکی میں

طریقہ ، قاعدہ ، قانون ہیں الفاظ اب ایسے
اُڑاتے ہیں جنہیں کچھ آج کے اوتار چٹکی میں

کبھی خاموش رہ کر کٹ رہے ریوڑ بھی بولیں گے
کبھی خاموش ہوں گے خوف کے دربار چٹکی میں

وہ جن کی عمر ساری کٹ گئی خوابوں کی جنت میں
حقیقت سے کہاں ہوں گے بھلا دوچار چٹکی میں

نتیجہ یہ بڑی گہری کسی سازش کا ہوتا ہے
نہیں ہلتے کسی گھر کے در و دیوار چٹکی میں

ڈرا دے گا تمہیں گہرائیوں کا ذکر بھی ان کی
جو دریا تیر کے ہم نے کئے ہیں پار چٹکی میں

پرندے اور تصور کے لئے سرحد نہیں ہوتی
کبھی اِس پار چٹکی میں ، کبھی اُس پار چٹکی میں

بس اتنا ہی کہا تھا شہر کا موسم نہیں اچھا
سزا کا ہو گیا سچ کہہ کے دِوِج حقدار چٹکی میں
مرسلہ: حیدرآبادی
غزل

محفل کی خاموشی ہے یا اظہار کی تنہائی
ہر سرگوشی میں پنہاں ہے اک پندارکی تنہائی

ایک بہار کے آجانے سے کیسے کم ہو جائے گی
ایک طویل خزاں میں لپٹے اک گلزار کی تنہائی

ہجر کی دھوپ سے ڈرنے والا اک سائے میں جا بیٹھا
لیکن جس کو سایہ سمجھا تھی دیوار کی تنہائی

آگے جانے کی خواہش بھی کتنا آگے لے آئی
اک بے منظر راہ گزر ہے اور رفتار کی تنہائی

اشیاء کی ترتیب میں خود کو تنہا کرتا رہتا ہوں
گھر میں لاکر رکھ دیتا ہوں میں بازار کی تنہائی

عزم قریب آنے والوں سے اپنا حال نہ کہہ دینا
ہوسکتا ہے تم کو رلادے پھر انکار کی تنہائی

عزم بہزاد

کہاں گئے وہ لہجے دل میں پھول کِھلانے والے

آنکھیں دیکھ کے خوابوں کی تعبیر بتانے والے

کِدھر گئے وہ رستے جن میں منزل پوشیدہ تھی
کِدھر گئے وہ ہاتھ مسلسل راہ دکھانے والے

کہاں گئے وہ لوگ جنہیں ظلمت منظور نہیں تھی
دِیا جلانے کی کوشش میں خود جل جانے والے

کسی تماشے میں رہتے تو کب کے گم ہو جاتے
اِک گوشے میں رہ کر اپنا آپ بچانےوالے

اس رونق میں شامل سب چہرے ہیں خالی خالی
تنہا رہنے والے یا تنہا رہ جانے والے

اپنی لے سے غافل رہ کر ہجر بیاں کرتے ہیں
آہوں سے نا واقف ہیں یہ شور مچانے والے

عزم یہ شہر نہیں ہے نفسا نفسی کا صحرا ہے
یہاں نہ ڈھونڈو کسی مسافر کو ٹھہرانے والے

عزم بہزاد